قضیہٴ ثانیہ اور ”خیر امت“

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی،۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

مسلمانوں کے اصل مسائل سے دھیان ہٹاکر ان کو مصنوعی مسائل میں الجھاکر ان کی توانائی اور ذہنی یکسوئی کو ختم کرنے کے لئے جو نت نئی کوششیں ہوتی رہتی ہیں اس سلسلہ کی ایک کڑی ثانیہ مرزا کا لباس ہے۔ جسے جان بوجھ کر وجہٴ انتشار بناکر قرآن وحدیث، شریعت، اسلامی تاریخ ہر ادارہ کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔

اللہ پاک تمام جہانوں کارب ہے تمام انسانوں کا خالق و مالک ہے۔ اس نے جس طرح کائنات کے لئے اصول و ضوابط مقرر کئے اسی طرح انسانوں کے لئے زندگی گذارنے کا طریقہ بتلایاتاکہ امن و سلامتی کے ساتھ دنیاوی زندگی گذار سکے۔ مگر اللہ نے انسانوں کو اطاعت اور بغاوت دونوں کا اہل بنایا جو لوگ اطاعت کرنا چاہیں انہیں اطاعت کی آزادی ہے جو بغاوت کرنا چاہیں انہیں اُس کا اختیار ہے، مگر کسی مسئلہ میں اگر یہ پوچھا جائے کہ زندگی گذارنے کے فلاں طریقہ میں اسلام کا کیا حکم ہے، تو وہ بتلایا جائے گا۔ اب اگر اس پر کوئی عمل نہیں کرتا یا تو کمزوری سے یا بغاوت سے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ مگر دنیا میں اس کے اوپر احکامات وہی لاگو ہونگے جو وہ بظاہر کررہا ہے۔

ثانیہ کے معاملہ میں ایک پیچیدگی یہ ہے کہ وہ انفرادی مرضی کے تحت جو کچھ کررہی ہے اسے میڈیا کا بڑا حلقہ مسلمانوں کے لئے رول ماڈل بتا رہا ہے۔ جو کہ صراحتاً غلط ہے۔ کوئی بھی مسلمان چھ انچ یا چھ فٹ کامعاملہ مرضی پر نہیں چھوڑ سکتا وہ اس سلسلہ میں شریعت کی رہنمائی دیکھے گا۔ اپنی مرضی سے کرے گا تو سب کے لئے رول ماڈل نہیں ہوسکتا۔

اللہ کے شریعت صرف ثانیہ کے لئے نہیں ہے وہ شارا پووا، سیرینا ولیمس کے لئے بھی مفید ہے اگر وہ عمل کریں۔ مسلمان ہونے کا تقاضہ تو یہ ہے کہ آپ اسلامی احکام دوسروں تک پہنچائیں۔ بے حیائی اور عریانی اور تمام برائیوں سے روکیں، یہ نہیں کہ خود گندگی میں بہیں اور دوسروں کو بھی دعوت دیں۔

کرکٹ کی دنیا میں اسپانسر کرنے والے کا اشتہار پہننا لازم ہوتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے کھلاڑی ہاشم آملہ نے شراب کمپنی کا لوگو پہننے سے منع کردیا۔ پوری پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھی منع کردیا تو کیا پاکستانی ٹیم کی روٹی روزی بند ہوگئی یاہاشم آملہ کو ٹیم سے نکال دیا؟

شریعت کی خلاف ورزی کرکے کوئی بھی اسلام یا مسلمانوں کا نام روشن نہیں کرسکتا۔ وہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے جو چاہے کرے مگر مسلمانوں اوراسلام پر کیوں احسان رکھا جاتا ہے کہ فلاں کی وجہ سے مسلمانوں کا نام روشن ہورہا ہے جبکہ وہ تمام کبائر میں ملوث ہو تب بھی۔ ایک بات یہ بہت زور دے کر کہی جارہی ہے کہ یہ تو دیکھنے والوں کے دماغی ٹیڑھ کی علامت ہے کہ وہ کھیل کے بجائے جسم دیکھتے ہیں یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ دیکھنے والے وہ دیکھتے ہیں جو دکھایا جاتا ہے۔ اصل خباثت اور شیطانیت اُس میڈیا کے کیمرہ کی ہے جو فوکس کھیل پر نہیں کھیل کے دوران اس لمحہ کی کرتا ہے جب کہ اس کے اعضاء مخصوصہ سب سے زیادہ نمایاں یابرہنہ ہوں۔ جو آپ شائع کریں گے یا دکھائیں گے وہی تو دیکھنے والا دیکھے گا۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ میچوں کے دوران کی جتنی تصاویر اب تک میگزین میں شائع ہوئی ہیں وہ دیکھ لیں خاص طور سے ٹائمس آف انڈیا دہلی ایڈیشن کا صفحہ اول کا وہ فوٹو جس میں زیر ناف زیر جامہ کو ہی فوکس کیا گیا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے جب آپ اتنی واہیات حیا سوز تصویر کو صفحہ اوّل پر دکھاتے ہیں تو دیکھنے والا کیوں مجرم ٹھہرا؟

دراصل اس میں افراد کااتنا قصور نہیں جتنا کہ اس بے حیائی، فحاشی، عریانی اور صارفیت Consumerism کی مہم چلانے والے تجارتی اداروں، میڈیا مالکوں اور شیطان کے ایجنٹوں کا ہے جو اس بے حیائی، فحاشی، عریانی کے ذریعہ اپنی اشیاء کو بیچنا چاہتے ہیں اوراس سے بھی بڑے مجرم وہ ہیں جو اس شیطانی ایجنڈہ کے ذریعہ انسانی سماج کو بے حیاء، کھوکھلا، سماجی اخلاقی قدروں سے بے پروا بناکر اپنا بے دام کا غلام بنارہے ہیں۔ شیطان کے یہ ایجنٹ اپنی شازشوں کو خوبصورت ناموں، عورتوں کی ترقی، آزادی، سماجی کھلاپن کے نام پر چلاتے ہیں۔ مگر ان ایجنٹوں کو یہ بتانا ہوگا کہ تعلیم، ترقی، تفریح کے لئے کیا جوان لڑکیوں کے برہنہ جسموں کی نمائش ہی واحد طریقہ ہے کیا؟ ورنہ افغانستان ہو یا عراق یا کوئی بھی مسلم ملک وہاں پر نوجوان لڑکیوں کے برہنہ جسموں کو ہی ترقی کی علامت کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ افغانستان میں ترقی کی سب سے بڑی علامت وہاں کی دوشیزہ فضا صمدزئی کی تقریباً عریاں تصویر جو حسینہٴ عالم کے مقابلہ میں لی گئی تھی وہ کیوں آج تک پیش کی جارہی ہے۔ جب ترقی نسواں کے علمبردار ترقی کی علامت کے طور پر ایسی حیا سوز تصاویر پیش کریں گے تو دیکھنے والے اسے کس نظر سے دیکھیں؟ اگر یہ سماج کو حیاء، شرم اور ڈسپلن سے بے زار کرنے کی مہم نہیں ہے تو دہلی میں ہندوستان ٹائمس کے اس سیمنار کی صرف یہی خبر کیوں ہائی لائٹ کی گئی جس میں ثانیہ، موجودہ حسینہٴ عالم اور کارنتھکین فارمولا ریس ڈرائیور نے مبنیہ طور پر کہا کہ شادی سے پہلے جنسی تعلقات میں کوئی حرج نہیں ہے؟ گو کہ ثانیہ نے بعد میں اس بیان سے لاتعلقی اور بیزاری کا اعلان کیا۔ مگر کیا ثانیہ کے لاتعلقی کے بیان کو میڈیا نے وہ اہمیت دی جو ان تینوں کے اداکارہ خوشبو کے بیان کی حمایت والے بیان کو دی تھی؟

اگر خوبصورت ناموں کی آڑ میں یہ جوان جسموں کی نمائش نہیں ہے تو 35-40 سال کی عمر کے بعد یہ ستارہ کیوں میڈیا کی توجہ کا باعث نہیں بنتے؟ کیا ان ستاروں کی ذہنی قابلیت ختم ہوجاتی ہے یا اُن کے جسموں کے کس بل ڈھیلے ہوکر اپنی مارکیٹ ویلیو کھودیتے ہیں اس لئے ایساہوتا ہے؟

اگر یہ شیطان کے ایجنٹ: عورتوں کے جسموں کی نمائش لگاکر منافع کمانے والے انسان / مسلم سماج میں تعلیم، ترقی اور برابری لانا چاہتے ہیں تو اِن سماجوں میں تعلیم، سماجی خدمت، خدمت خلق کے کام کرنے والی نمایاں خواتین کو میڈیا میں کیوں نمایاں نہیں کیاجاتا۔ مثال کے طور پر اسی ماہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ڈاکٹر قدسیہ تحسین کو Nematology میں معرکة الآراء تحقیق پر سائنس کا نہایت اعلیٰ انعام دیاگیا، مگر مسلمانوں میں تعلیم، ترقی، کھلے پن کے دعویدار میڈیا اور ”جدید خیال دانشوروں“ نے ڈاکٹر قدسیہ تحسین کو رول ماڈل کیوں نہیں بتایا؟ ان کی فوٹو ، ٹی وی اور اخباروں میں کیوں نہیں شائع ہوئے؟ ٹینس میں عالمی درجہ بندی میں دسواں نمبر حاصل کرلینا انسانیت کی زیادہ بڑی خدمت ہے یا زمانہٴ حمل میں جنین میں ہونے والی تبدیلیوں کی تحقیق انسانیت کی زیادہ بڑی خدمت ہے؟ اس بحث میں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ تعلیم یا تکنالوجی حاصل کرنے کے لئے لباس بے حیائی پہننا ہی کیوں ضروری ہے؟ کویت کی نشانہ باز خاتون پورے ساتر لباس میں اولمپک میں انعام حاصل کیا تھا کیا اس کے لئے جینس یا اسکرٹ پہننا ضروری تھا؟

دراصل کچھ لوگ تو دانستہ شیطان کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں مگر اکثریت شیطان کے غلبہ کی وجہ سے جسے قرآن میں ”خبیث کی کثرت“ کہا گیا ہے مرعوب ہوگئے ہیں وہ دنیا کو حق پہنچانے اور کامیابی کا راستہ دکھانے کے بجائے شریعت کو بدل دینا چاہتے ہیں، انہیں اپنے رویہ پر غور کرنا چاہئے۔ یہ انسانیت کی خدمت نہیں ہے کہ اگر خرابی اور برائی کی کثرت ہو اور لوگ شیطانی اغواء کی وجہ سے برائی کو مجبوری اور اچھائی سمجھ کر ہضم کرنے لگیں بلکہ اس کی اشاعت کرنے لگیں تو ”خیر امت“ یا زندگی گذارنے کے لئے خدائی رہنمائی کی دعویدار آخری امت بھی سچ کو سچ اور غلط کو غلط نہ کہے تواس امت کے وجود کی ضرورت ہی کیا ہے؟ محمد علی کلے نے ویتنام جنگ میں غریب بے قصور عوام کا خون بہانے سے منع کرکے جبری فوجی خدمت کے امریکی قانون سے بغاوت کی پاداش میں عالمی ہیوی ویٹ مکے باز چمپئن کا خطاب گنوادیا تھا۔مگر اپنے اس حق پرستانہ عمل سے انسانی تاریخ میں اپنے لئے ایک مقام محفوظ کرلیا۔اور وہ چھینا ہوااعزاز بھی اللہ نے انہیں دوبارہ عطا کیا۔ اگر وہ بھی اور ہاشم آملہ بھی مجبوری کا بہانہ کرکے حرام اورانسانیت دشمن عمل کرتے رہتے تو کیا تاریخ میں وہ اپنا نام لکھا پاتے؟ یہ چند دنوں کی بیوفا پبلسٹی زیادہ بہتر ہے یا دنیاوی لحاظ سے بھی پائیدار اور اخروی لحاظ سے بھی لافانی کامیابی زیادہ بہتر ہے؟ کیونکہ آج زمانہ خود غرضی برائی اور شیطانیت کے غلبہ کا ہے ایسے میں اچھائی، نیکی اور انسان دوستی کے کام کرنا مشکل ہے۔ یہ صرف ثانیہ کے لئے نہیں بلکہ ہر نیک انسان / مسلمان کے لئے فیصلہ کرنے کا نازک موقع ہے کہ وہ شیطان کے گروہ کے ساتھ ہے یا اللہ کے فرماں برداروں میں سے ہے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 90 ‏،محرم1427 ہجری مطابق فروری2006ء